فردوس خان
آزادی کی 6دہائی گزر جانے کے بعد بھی ہمارے ملک میں بندھوا مزدوری مسلسل جاری ہے۔حالانکہ حکومت نے 1975میں ایک آرڈینینس کے ذریعہ بندھوا مزدوری پر پابندی عائد کر دی تھی، مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حکومت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ملک میں بندھوا مزدوری ابھی بھی جاری ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیں ، ملک کی راجدھانی دہلی کو ہی لے لیجئے، پولس نے گزشتہ دنوں راجدھانی کے نبی کریم علاقہ میں ایک بیگ بنانے والے کارخانہ میں کام کرنے والے 22بچوں کو آزاد کرایا۔ان بچوں کی عمر محض7سے 12سال کے درمیان ہے۔شکایت ملنے پر سینٹرل ڈسٹرکٹ ٹاسک فورس، این سی او سلام بالک ٹرسٹ اور ہیومن رائٹس لاء نیٹورک، دہلی پولس اور لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسران اور نمائندوں نے کارخانہ پر چھاپہ مارا تھا۔ان بچوں میں بیشتر بچے بہار کے سیتا مڑھی، دربھنگا اور نیپال کے بتائے گئے۔ افسران کے مطابق، ان بچوں سے روزانہ 12سے 14گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔
صوبائی وزیر برائے محنت اور روزگار ہریش راوت کے مطابق، 31مارچ تک دو لاکھ 88ہزار 462بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا جا چکا ہے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے 7015.46لاکھ روپے مہیا کرائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر ضلع میں سروے کرانے کے لئے مختلف ریاستی حکومتوں کو 676لاکھ روپے دئے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر کی ہدایات کے مطابق بندھوا مزدورسسٹم استیصال قانون 1976کے تحت عمل درآمد کی نگرانی کے لئے لیبر اینڈ امپلائمنٹ سکریٹری کی صدارت میں ایک خصوصی گروپ بھی تشکیل کیا گیا ہے، جس کی اب تک علاقہ در علاقہ 18میٹنگیں ہو چکی ہیں۔ حکومت نے 1980میں اعلان کیا تھا کہ اب تک ایک لاکھ 20ہزار 500بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا جا چکا ہے۔ لیبراینڈ امپلائمنٹ منسٹری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ملک میں19ریاستوں سے 31مارچ تک دو لاکھ 86ہزار 612بدھوا مزدوروں کی نشاندہی کی گئی اور انہیں آزاد کرایا گیا۔ نومبر تک صرف ایک ہی ریاست اتر پردیش میں سے 28ہزار 385میں سے صرف 58بندھوا مزدوروں کو بازآباد کیا گیا، جبکہ بقیہ 18ریاستوں میں ایک بھی بندھوا مزدوروں کی نو آبادکاری نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق، ملک میں سب سے زیادہ تمل ناڈو میں65ہزار 573بندھوا مزدوروں کی نشاندہی کر کے انہیں آزاد کرایا گیا۔ کرناٹک میں 63ہزار 437اور اڑیسہ میں 50ہزار 29بندھوا مزدوروں کو آزاد کرایا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 19ریاستوں کو 68کروڑ 68لاکھ 42ہزار روپے کی مرکزی امداد مہیا کرائی گئی، جس میں سب سے زیادہ رقم 16کروڑ 61لاکھ 66ہزار 94روپے راجستھان کو دئے گئے۔ 15کروڑ 78لاکھ 18ہزار روپے کرناٹک اور 9کروڑ 3 لاکھ 34ہزار روپے اڑیسہ کو مہیا کرائے گئے۔ اسی میعادکے دوران سب سے کم مرکزی امداد اتراکھنڈ کو مہیا کرائی گئی۔ اتر پردیش کو 5 لاکھ 80ہزار روپے کی مرکزی امداد فراہم کرائی گئی۔ علاوہ ازیں ارونا چل پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، دہلی، گجرات اور اتراکھنڈ کو 31مارچ 2006تک بندھوا بچوں کا سروے کرانے اور بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے پروگرام کرنے کے لئے 4کروڑ 20لاکھ روپے دئے گئے۔لیبر منسٹری کے ڈائریکٹر جنرل انل سوروپ کے مطابق بندھوا مزدوروں کی بازآبادکاری کے لئے، انہیں آزاد کرنے کے بعدفوری طور پرہر مزدورکو ایک ہزار روپے کی فوری امداد،19ہزار روپے کی بازآبادکاری امداد، رہائش، زراعتی زمین اور روزگار کے وسائل مہیا کرانے کی تجویز ہے۔راجستھان کے چیف سکریٹری برائے لیبر اینڈ پلاننگ منوہر کانت کے مطابق، ریاست میں1976سے اب تک 11ہزار 319بندھوا مزدوروں کی نشاندہی کی گئی۔ ان میں سے 9ہزار 112مزدوروں کی بازآبادکاری کی گئی، جبکہ 1467کو دیگر دوسری ریاست میں بازآبادکاری کے لئے بھجوایا گیا۔ ریاست میں بندھوا مزدور رکھنے والوں کے خلاف 370چالان پیش گئے گئے، جن میں137معاملے خارج، 75میں جرمانہ،56معاملوں میں سزا دی گئی اور 102معاملوں میں ملزمین کو بری کر دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ راجستھان میں عمارت اور دیگر تعمیری ورکرس ویلفیئر ایکٹ کے تحت 50لاکھ آلات کی شکل میں وصول کئے گئے اور 7ہزار 497مزدوروں کا رجسٹریشن کیا گیا۔
جے پور کے سانگانیر میں مزدوری کا کام کر رہے ستیہ پرکاش نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ الور کے ساگر اینٹ بھٹے پر کام کرتا تھا، جہاں اسے کنبہ سمیت بندھوا مزدور کے طور پر رکھا گیا تھا۔ ٹھیکیدارانہیں نہ تو پوری مزدوری دیتے تھے اور نہ اسے جانے دیتے تھے۔ یہاں مزدوروں سے 15سے 16گھنٹے کام کرایا جاتا ہے۔ ان مزدوروں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔گزشتہ مئی ماہ میں بندھوا مکتی مورچہ کی شکایت پر ایس ڈی ایم، نائب تحصیلدار اور لیبر انسپکٹر نے ریونیو اسٹاف کے ساتھ بھٹے پر چھاپہ مار کر مزدوروں کو آزاد کرایا۔ستیہ پرکاش کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مزدوروں کو بھی آزاد کرایا گیا۔انتظامیہ نے انہیں بقایہ ادائیگی کے علاوہ کرایا بھی دلوایا۔ ملک میں ایسے ہی کتنے بھٹے اور دیگر کاروباری دھندے ہیں، جہاں مزدوروں کو بندھوا بنا کر ان سے سخت محنت کرائی جاتی ہے اور مزدوری کے عوض میںبرائے نام پیسے دئے جاتے ہیں، جن سے انہیں دو وقت کی بھرپیٹ روٹی تک نصیب نہیں ہو پاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،لیکن جب بندھوا مکتی مورچہ جیسی تنظیموں کے ذریعہ انتظامیہ پر دبائو بنایا جاتا ہے تو افسران نیند سے بیدار ہوتے ہیںاور کچھ جگہوں پر چھاپہ ماری کی رسم ادا کر لیتے ہیں۔ مزدور سریندر کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو ٹھیکیداروں کی من مانی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ انہیں ہر روز کام نہیں مل پاتا، اس لئے وہ کام کی تلاش میں اینٹ بھٹوں کا رخ کرتے ہیں، مگر وہاں بھی انہیں غیر انسانی صورتحال میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی مزدور بیمار ہو جائے تو اسے دوا ملنا تو دور ، آرام تک کرنے نہیں دیا جاتا ۔
دراصل، انگریزی دور حکومت میں نافذ کئے گئے زمینی بندوبست نے ہندوستان میں بندھوا مزدوری کی بنیادڈالی تھی۔اس سے پہلے تک زمین کو جوتنے والا زمین کا مالک ہوتا تھا۔ زمین کی ملکیت پر راجائوں اور جاگیرداروں کا کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ انہیں وہی ملتا تھا، جو ان کا واجب حق ہوتا تھا اور یہ کلپیدوار کا ایک فیصد حصہ ہوتا تھا۔ کسان ہی زمین کے مالک ہوتے تھے۔ حالانکہ زمین کا اصلی مالک راجا تھا۔ پھربھی ایک بار جوتنے کے بعد ملکیت کسان کے ہاتھ میں چلی گئی۔ راجا کی بادشاہت اور کسان کی ملکیت کے درمیان کسی بھی طرح کا کوئی تنازعہ نہیںہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی گئی، لیکن کسانوں کی زمین کی ملکیت پر کبھی کوئی اثر نہیں پڑا، راجا اور کسانوں کے درمیان کوئیثالث بھی نہیں تھا۔ زمینی نظم ٹھیک سے چلانے کے لئے راجا گائووں میں مکھیا مقرر کرتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی تبدیلی آتی گئی اور زمین کے مالک کا درجہ رکھنے والا کسان محض زراعتی مزدور بن کر رہ گیا۔
کہنے کو تو لیبر سسٹم ایکٹ 1976کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی بندھوا مزدوری پر پابندی عائد ہو چکی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ لیبر قانونوں کی لچک کے سبب مزدوروں کے استحصال کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی ہمارے ملک میں مزدوروں کی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے۔ خواندگی اور بیداری نہ ہونے کے سبب اس طبقہ کی جانب کسی کا دھیان نہیں گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے، تاکہ مزدوروں کو استحصال سے نجات مل سکے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مزدور بھی اس ملک کی آبادی کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں اور ملک کی ترقی کی علامت بنیں فلک بوس عمارتوں میں ان کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے۔
0 Comments