فردوس خان
ملک میں غذائی تحفظ (فوڈ سیکورٹی) بل کو منظوری ملنے سے فاقہ کشی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کچھ حد تک کمی آئے گی، ایسی امید کی جا سکتی ہے۔حال ہی میں یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی کی صدارت والی قومی صلاح کار کمیٹی( این اے سی) نے قومی غذائی تحفظ بل 2011 کو منظوری دی ہے۔ اس کا مقصد فاقہ کشی کے شکار لوگوں کو غذائی تحفظ فراہم کرانا ہے۔اگر یہ بل پارلیمنٹ میں پاس ہو جاتا ہے تو ملک کے عوام کو رعایتی قیمتوں پر اشیاء خوردنی مل سکے گی۔بل کے مطابق،46فیصد گائوں میں رہنے والے اور 28 فیصد شہر میں رہنے والے خاندانوں کو ترجیحی گروپ میں شامل کیا جائے گا۔ ان خاندان کے فی ممبر سات کلواناج یعنی تین روپے کلو گیہوں، دو روپے کلو چاول اور ایک روپے کلو کی شرح سے موٹااناج لے سکیں گے۔ 49 فیصد دیہات کے لوگ اور 22 فیصد شہر میں رہنے والے خاندانوں کو عام درجے کے گروپ میں رکھا گیا ہے۔انہیں چار روپے کلو کی شرح سے اناج ملے گا۔
ملک کی 32 فیصد آ بادی غریبی سطح کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ، جو فصل کاٹے جانے کے بعد کھیت میں بچے ہوئے اناج اور بازار میں پڑی گلی سڑی سبزیاں سمیٹ کر کسی طرح اس سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔بڑے شہروں میں بھی بھوک سے بے حال لوگوں کو کوڑے دانوں میں سے روٹی یا بریڈ کے ٹکڑوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ روزگار کی کمی اور غریبی کی مار کی وجہ سے کتنے ہی خاندان چاول کے کچھ دانوں کو پانی میں ابال کر پینے کو مجبور ہیں۔ ایک طرف گوداموں میں لاکھوں ٹن اناج سڑتا ہے تو دوسری طرف لوگ بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں۔ایسی حالت کے لیے کیا انتظامیہ سیدھے طور پر قصوروار نہیں ہے؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت بل کو منظور کرانے کے ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنائے کہ اس منصوبے پر ایمانداری سے عمل ہو۔ یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک غریبوں کی بھلائی کے لیے منصوبے تو کئی بنائے گئے ہیں لیکن لال فیتہ شاہی کی وجہ سے وہ محض کاغذوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے ۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تو اسے قبول کرتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے چلا ایک روپیہ غریبوں تک پہنچتے پہنچتے پندرہ پیسے ہی رہ جاتا ہے۔
ملک میں ہر روزقریب سوا آٹھ کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں، جبکہ ہر سال لاکھوں ٹن اناج سڑ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اناج کی بربادی پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے مرکزی سرکار سے کہا تھا کہ گیہوں کو سڑانے سے اچھا ہے، اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ کورٹ نے اس بات پر بھی حیرانی جتائی تھی کہ ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں اناج سڑ رہا ہے، وہیں تقریبا 20 کروڑ لوگ قلت غذا کے شکار ہیں۔ گزشتہ سال 12 اگست کو سماعت کے دوران جسٹس دلویر بھنڈاری اور جسٹس دیپک ورما کی بنچ نے حکومت کو حکم جاری کیا تھا کہ ہر صوبے میں ایک بڑا گودام بنایا جائے اور ہر ایک ڈویژن ، ضلع میں بھی گودام بنائے جائیں، کورٹ نے یہ بھی کہا کہ خشک سالی اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کو مضبوط کیا جائے۔ساتھ ہی یہ یقینی بنایا جائے کہ مناسب قیمت کی دکانیں مہینے بھر کھلی رہیں۔ اس سے پہلے 27 جولائی کو سنوائی میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، وہاں اناج کا ایک بھی دانا بیکار چھوڑنا گناہ ہے۔ مگر کورٹ کے حکم پر کتنا عمل ہوا، کسی سے چھپا نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ ماہ تک پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت لوگوں کو اناج تقسیم کیا گیا، لیکن اس میں بھی دھاندلی کیے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔
پچھلے کافی عرصے سے ہر سال لاکھوں ٹن گیہوں برباد ہو رہا ہے۔ بہت سا گیہوں کھلے آسمان کے نیچے بارش میں بھیک کر سڑ جاتا ہے۔ وہیں گوداموں میں رکھے اناج کا بھی 15 فیصد حصہ ہر سال خراب ہوجاتا ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق، انڈین فوڈ کارپوریشن (ایف سی آئی) کو گوداموں میں سال 1997 سے 2007 کے دوران 1.83 لاکھ ٹن گیہوں، 6.33 لاکھ ٹن چاول ، 2.20 لاکھ ٹن دھان اور 111 ٹن مکا سڑ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں ، کولڈ اسٹوریج کی کمی کی وجہ سے ہر سال تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے کی سبزیاں اور پھل بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق، پچھلے چھ برسوں میں پورے ملک کے گوداموں میں 10 لاکھ 37 ہزار 738 ٹن اناج سڑ چکا ہے۔ ساتھ ہی ان گوداموں کی صفائی پر تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ ایف سی آئی کے مطابق، پچھلے سال جنوری تک 10,688 لاکھ ٹن اناج خراب ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال دو لاکھ ٹن اناج خراب ہو جاتا ہے۔
موصولہ اطلاع کے مطابق، پچھلے سال سرکاری ایجنسیوں نے چھ کروڑ ٹن اناج خریدا، جبکہ گودام میں 447.09 لاکھ ٹن اناج رکھنے کی صلاحیت ہے۔ ایسے میں باقی بچے اناج کو کھلے آسمان کے نیچے رکھا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً 28 ہزار کروڑ روپے کا اناج کھلے میں پڑا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک تو پہلے ہی گوداموں کی کمی ہے، اس کے باوجود سرکاری گوداموں کو پرائیویٹ کمپنیوں کو کرائے پر دے دیا جاتا ہے اور اناج کھلے میں سڑتا رہتا ہے۔ جن گوداموں میں اناج رکھنے کی جگہ بچی ہوئی ہے،لا پرواہی کی وجہ سے وہاں بھی اناج نہیں رکھا جاتا ہے۔ کھلے میں پڑے اناج کو ترپال یا پلاسٹک شیٹ سے ڈھک دیا جاتا ہے، لیکن بارش اور پانی بھر جانے کی وجہ سے اناج محفوظ نہیں رہ پاتا۔ پانی میں بھیگے اناج میں کونپل پھوٹنے لگتی ہے اور کچھ دنوں بعد سڑ جاتا ہے۔گوداموں میں رکھے اناج کو کیڑوں اور چوہوں سے بچانے کے بھی انتظام نہیں کیے جاتے، جس سے اناج میں کیڑے لگ جاتے ہیں اور اناج کو چوہے کھا جاتے ہیں۔ افسران کے ذریعہ چوری چھپے سرکاری اناج بیچنے کے الزام بھی لگتے رہے ہیں۔ گوداموں سے کم ہوا اناج چوہوں کے حصے میں لکھ دیا جاتا ہے۔
حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف ملک کے پاس اناج کا اتنا ذخیرہ ہے کہ اسے رکھنے تک کی جگہ نہیں ہے، دوسری طرف ملک کی ایک بڑی آبادی کو پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہو پاتا ہے۔ یہ آبادی فاقہ کشی کی لپیٹ میں ہے ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے 88 ملکوں کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کو 66 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔ہندوستان کے اندر پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں کی خوراک میں کمی آئی ہے۔دیہاتی علاقوں میں ہر آدمی کی اوسطاً خوراک 1972-1973 میں 2266 کیلوری یومیہ تھی، جو اب کم ہو کر 2149 رہ گئی ہے۔ ملک میں آبادی 1.9 فیصد کے اوسط سے بڑھی ہے، وہیں غذائی پیداوار 1.7 فیصد کے اوسط سے کم ہوا ہے۔
قومی خاندانی صحت سروے کی رپورٹ کے مطابق ، ملک میں 46 فیصد بچے انیمیا کا شکار ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میںتین سال سے کم عمر کے قریب 47فیصد بچے کم وزن کے شکار ہیں۔اس کی وجہ سے ان کی جسمانی نشو و نما بھی رک گئی ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں 33.1 فیصد بچے انیمیا کی لپیٹ میں ہیں، جبکہ مدھیہ پردیش میں 60.3 فیصد، جھارکھنڈ میں 59.2 فیصد ، بہار میں 58 فیصد، چھتیس گڑھ میں 52.2 فیصد، اڑیسہ میں 44 فیصد، راجستھان میں 44 فیصد، ہریانہ میں 41.9 فیصد، مہاراشٹر میں 39.7 فیصد ،اتراکھنڈ میں 38 فیصدی، جموں و کشمیر میں 29.4 فیصد اور پنجاب میں 27 فیصد بچے انیمیا کی زد میں ہیں۔یونیسیف کے ذریعہ جاری ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے کل انیمیا زدہ بچوں میں سے ایک تہائی آبادی ہندوستانی بچوں کی ہے۔ہندوستان میں پانچ کروڑ 70 لاکھ بچے انیمیا کے شکار ہیں۔ پوری دنیا میں کل 14 کروڑ 60 لاکھ بچے انیمیا کی زد میں ہیں۔ اس اضافے کی موجودہ رفتار ایسی ہی رہی تو 2015 تک انیمیا کا اوسط آدھا کر دینے کا ہدف 2025 تک بھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ رپورٹ میں ہندوستان میں انیمیا کے اوسط کا مقابلہ دیگر ملکوں سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں انیمیا کا اوسط ایتھوپیا ، نیپال اور بنگلہ دیش کے برابر ہے۔ ایتھوپیا میں انیمیا کااوسط 47 فیصد اور نیپال اور بنگلہ دیش میں 48-48 فیصد ہے، جو چین کے آٹھ فیصد، تھائی لینڈ کے 18 فیصد اور افغانستان کے 39 فیصد کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔
مرکزی حکومت نے غذائی پیداوار میں آئے ٹھہرائو اور بڑھتی آبادی کی غذائی ضروریات کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگست 2007 میں مرکز ی اسپانسرڈ غذائی تحفظ مشن اسکیم شروع کی تھی،اس کا مقصد گیہوں، چاول اور دال کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا، تاکہ ملک میں غذائی تحفظ کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ قومی غذائی تحفظ مشن کے تحت چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے 14 ریاستوں کے 136 ضلعوں کومنتخب کیا گیا ہے۔ ان ریاستوں میں آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اڑیسہ ، تمل ناڈو، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ گیہوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 9 ریاستوں کے 141 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں پنجاب ، ہریانہ، اتر پردیش ، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اسی طرح دال کی پیداوار بڑھانے کے لیے14 ریاستوں ، کے 171 ضلعوں کو منتخب کیا گیا۔ ان ریاستوں میں آندھرا پریش، بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر، اڑیسہ راجستھان، تمل ناڈو، پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ان ضلعوں کے 20 ملین ہیکٹیئر دھان کے علاقے، 13 ملین ہیکٹیئر گیہوں کے علاقے اور 4.5 ملین ہیکٹیئر دال کے علاقے شامل کیے گئے ہیں۔ جو دھان اور گیہوں کے کل بوائی علاقے کا 50 فیصد ہے۔ دال کے لیے مزید 20 فیصدی علاقے تیار کیے جائیں گے۔در اصل بڑھتی مہنگائی نے کم آمدنی والے طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں صرف ٖغذائی تحفظ بل بنانے سے کچھ خاص ہونے والا نہیں ہے۔ حکومت کو ہر اعتبار سے عوام کی بنیادی سہولتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔
0 Comments