فردوس خان 
لوگوں نے اپنی زمین جائداد وقف کرتے وقت یہی تصور کیا ہوگا کہ آنے والی نسلوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ بے گھروں کو گھر ملے گا اور ضرورتمندوں کو مدد ملے گی۔ لیکن ان کی روحوں کو یہ دیکھ کر کتنی تکلیف پہنچتی ہوگی کہ ان کی وقف کی گئی زمین جائداد چند سکوں کے عوض ضرورتمندوں اور حقداروں سے چھین کر دولت مندوں کو فروخت کی جارہی ہے۔مسجدوں ، مزاروں اور وقف کی دیگر جائداد پر قبضے کر لئے گئے ہیں یا کرادیے گئے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ قبرستان تک کو بھی نہیں بخشا گیا۔قبرستان کی قبریں کھود کر مردوں کی ہڈیاں ضائع کی جارہی ہیں تاکہ قبرستان کا نام و نشان ہی باقی نہ رہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مرنے کے بعد دو گز زمین بھی میسر نہیں ہوپارہی ہے۔ مُردوں کو دفنانے کے لئے لوگوں کو انتظامیہ اور پولیس کی مدد لینا پڑ رہی ہے ہریانہ سمیت کم و بیش پورے ملک کی صورت حال یہی ہے۔

گزشتہ 19 جون کو ہریانہ کے جھجر ضلع میں واقع پرنا لا گائوں میں مسلم فرقے کے ساٹھ سالہ منوہر کا انتقال ہوگیا۔ لیکن گائوں والوں نے انہیں قبرستان میں دفنانے نہیں دیا کیونکہ اس قبرستان پر گائوں والوں کا قبضہ ہے۔ گائوں میں 6 کنال 18 مرلے کا قبرستان ہے لیکن اس پر گائوں کے ہی بھگوانا ، اودے، نتھوا اور پھول سنگھ ملّے کا قبضہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ نے انہیں یہ جگہ لیز پر دی ہے ۔ ہریانہ’ مسلم خدمت سبھا ‘کے جھجر ضلع کے کنوینر جیون ملک کا کہنا ہے کہ جب اس سلسلے میں وقف بورڈ کے جھجر آفس میں مامور اسٹیٹ آفیسر رفاقت اللہ سے شکایت کی گئی تو انہوں نے انتہائی بد اخلاقی کے ساتھ کہا کہ میں نے تمہارے جنازے کو دفنانے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے۔ مایوس ہوکر لوگوں نے ضلع انتظامیہ سے فریاد کی جس کے نتیجے میں میت دفنائی جاسکی۔ تقریبا ً آٹھ سال پہلے منوہر کی بیوی رضیہ کے انتقال پر بھی کنبے کے لوگوں کو اسی طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ایک طرف تو گھر میں میت رکھی تھی۔ لوگ زارو قطار رو رہے تھے جبکہ دوسری طرف قبرستان پر قابض لوگ میت کو دفنانے سے روک رہے تھے۔ عجیب پریشانی کا عالم تھا۔ بہر حال پولیس ، انتظامیہ کے تعاون سے مرنے والے کو دو گز زمین نصیب ہوسکی۔

قابل غور ہے کہ مذہبی مقامات کے تحفظ اور نگرانی کے لئے آزادی کے بعد مرکزی حکومت نے 1954 میں وقف قانون بنایا،جس میں 1995 میں کچھ بنیادی ترامیم کی گئیں۔اس قانون کی دفعہ13(1) کے تحت پنجاب، ہریانہ ، ہماچل پردیش اور مرکز کے زیر انتظام چنڈی گڑھ میں آنے والے مذہبی مقامات کے تحفظ کے لئے مرکزی حکومت کی نگرانی میں پنجاب وقف بورڈ تشکیل پایا۔ اس کے بعد 29 جولائی 2003 کو مرکزی نوٹیفکیشن کے تحت اسے توڑ دیا گیا اور پھر یکم اگست 2003 کو ہریانہ وقف بورڈ وجود میں آیا مگر اس وقف بورڈ کو جس مقصد کے تحت بنایا گیا تھا ،یہ اس سے بھٹک گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی جائدادیں ختم کرکے فروخت کی جانے لگیں ۔ وقف بورڈ کے افسران نے اپنے مفاد کے لئے وقف کی املاک کو پٹـے کی آڑ میں بیچنا شروع کردیا۔ قبرستان کو ختم کرکے کالونیاں اور دکانیں بنائی جانے لگیں۔ حکومت ہند کے ذریعے جاری نوٹیفکیشن میں ہریانہ وقف بورڈ کے پاس 20908 ایکڑ زمین سمیت 12494 املاک ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری پہلے پنجاب وقف بورڈ کے پاس تھی،اور اب ہریانہ وقف بورڈ کے پاس ہے۔ ویسے تو پنجاب وقف بورڈ کی مدت کار میں بھی متعلقہ افسروں اور ملازمین نے وقف کی املاک کو خورد برد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن بچی کھچی کسر ہریانہ وقف بورڈ کے اہلکاروں نے پوری کردی۔ افسران نے زمین مافیا سے مل کر وقف املاک کو فروخت کرنا شروع کردیا۔ گزشتہ دنوں کرنال کے قبرستان کو فروخت کرنے کا معاملہ سامنے آیا ۔ ہریانہ وقف بورڈ کے کرنال میں واقع دفتر میں مقرر اسٹیٹ آفیسر محمد یعقوب سراولی اور بورڈ کے انبالہ میں واقع صدر دفتر میں تعینات لیز اینڈ ایکویزیشن اور ایڈمنسٹریٹیو آفیسر امتیاز خضر اور چیف ایڈمنسٹریٹیو آفیسر ڈاکٹر پرویز احمد نے شہر کے جنڈ لاگیٹ کے باہر واقع چاند سرائے کے نام سے مشہور 21 بیگہ قبرستان کا پٹا لینڈ مافیا کو دے دیا۔ خسرہ نمبر 4489 میں 21 بیگہ قبرستان کی زمین اربن اسٹیٹ کے رہنے والے اشوک کمار اور سیکٹر چار کے رہنے والے سنیل کمار نے وقف بورڈ سے کاشت کے لئے لی تھی لیکن انہوں نے اس پر کالونی کے لئے پلاٹ کاٹ دیے۔ انہوں نے قبرستان پر قبضہ کرتے ہوئے جے سی بی مشین سے یہاں کی قبروں کو ختم کرکے کالونی بنانے کے لئے سڑک بنانی شروع کردی۔ اس پر مقامی مسلمانوں نے مخالفت کی اور انتظامیہ سے اس کی شکایت کی۔ انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے کام رکوا دیا۔ لیکن وقف بورڈ کے افسران اپنے کئے پر شرمندہ ہونے کے بجائے مقامی مسلمانوں کو گمراہ کرکے اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ قبرستان میں دفنائے گئے عبد الغفور کے بیٹے بیر الدین کا کہنا ہے کہ وقف کے افسران قبضہ کرنے والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے رات میں قبرستان میں دیوار تک بنا ڈالی ۔ اس قبرستان پر تقریباً 17 لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کرنال کے ضلع نائب کمشنر سے شکایت کی جس میں انہوں نے قبرستان پر قابض اشوک کمار، سنیل کمار اور جگتار سنگھ کے علاوہ وقف کے افسران کو بھی ملزم بنایا۔ ان میں وقف بورڈ کے صدر دفتر انبالہ کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسر اور اسٹیٹ انچارج اینڈ لیز ایکویزیشن امتیاز خضر اور کرنال میں تعینات اسٹیٹ آفیسر محمد یعقوب سراولی شامل ہیں۔ غور طلب ہے کہ پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے 19 ستمبر 2008 کو قبرستان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔عدالت نے کہا تھا کہ قبرستان کو الاٹ کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ ہائی کورٹ کے احکام کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ قبروں کو کھودنا اور کسی مذہبی مقام کو نقصان پہنچانا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم تنظیموں نے جب اقلیتی کمیشن میں شکایت کی اور ہر طرف سے وقف پر دبائو بڑھنے لگا تو اس پٹے کو رد کردیا گیا لیکن اب پھر سے لینڈ مافیا نے اس قبرستان پر قبضہ کرلیا ہے۔ گھروندہ قصبے کے قبرستان خسرہ نمبر 222 رقبہ 10 کنال پر بھی ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح جھجر ضلع کے بہادر گڑھ قصبے میں وقف بورڈ کی 52 بیگہ اور تین بیگہ کی دو املاک پر بھی کالونیاں بسا دی گئی ہیں۔ سونی پت کے گائوں شیر شاہ کے قبرستان کی 10 بیگہ زمین بھی ہتھیا کر مکان بنالئے گئے۔ کرنال ضلع کے تراوڑی قصبے میں ایک ایکڑ کا قبرستان ہے لیکن اس کا استعمال رہائش کے لئے ہورہا ہے۔ تراوڑی صنعتی علاقہ ہے۔ یہاں کارخانوں میں کام کرنے والے لوگوں نے قبرستان پر قبضہ کرکے اپنی بستی بسا لی ہے مگر وقف کے عہدیدار اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ہریانہ کے دیگر علاقوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ زمین خواہ قبرستان کی ہو، مسجد کی ہو یا کسی مزار کی، وقف بورڈ کی لاپرواہی سے کروڑوں کی املاک پر ناجائز قبضے ہورہے ہیں۔ ایسے معاملے بھی سامنے آئے ہیں جب لوگوں نے وقف بورڈ سے پٹہ پر زمین لیکر اسے موٹی رقم میں بیچ دیا ہے۔ کرنال ضلع کے اندری قصبے کے قبرستان کو بھی پٹے کے نام پر بیچنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ موصولہ دستاویز اور معلومات کے مطابق اس وقت کے پنجاب وقف بورڈ کے افسران نے اندری کے قبرستان خسرہ نمبر 88، رقبہ 6 کنال 13 مرلے کو سال 1987-88 میں شمس الدین اور مغل الدین ولد محمد صادق، نیازالدین ولد مولا بخش ساکن قصبہ اندری ضلع کرنال کو لیٹر نمبر 24لیزاربن ( ایف نمبر ایچ 5-9)19538/87-88 مؤرخہ 1-04-1988 کے ذریعہ 225 روپے ماہانہ پٹے پر دیا تھا۔ بعد میں شمس الدین کے بیٹے جمیل نے اسی قبرستان کی زمین پر دو دکانوں کی جگہ شانتی دیوی زوجہ چندر لال ساکنہ وارڈ نمبر 1 اندری ضلع کرنال کو 80 ہزار روپے فی دکان کے حساب سے بیچ دی۔ 18 جنوری 2006 کو اس کا اقرار نامہ بھی لکھا گیا، جس میں بیعانہ کے طور پر 40 ہزار روپے نقد دینے اور بقیہ رقم ایک لاکھ 20 ہزار روپے دکانیں بننے کے بعد دینا طے پایا۔ انبالہ جگ دھاری روڈ کے کنارے واقع قبرستان کی قیمتی زمین پر بھی ناجائز قبضہ کرلیا گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ یہاں کے قبرستان سے قبریں ہی غائب کردی گئیں۔ گزشتہ مارچ میں جب قومی اقلیتی کمیشن کے ممبر اور ریٹائرڈ جج ڈاکٹر مہندرسنگھ نے قبرستان کا معائنہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ اس قبرستان میں 1849 میں دفنائے گئے انگریز افسر جے پی کلیگم کی قبر تک غائب ہوچکی ہے۔ مانا جارہا ہے کہ نیم پلیٹ چوری ہونے کی وجہ سے کئی قبروں کی شناخت ختم ہوگئی۔ کافی بڑے اس قبرستان کی زمین پر کئی لینڈ مافیا کی نظر ہے ۔ اس کا کچھ حصہ تو ناجائز قبضے کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ کمیشن کو اس بارے میں کافی شکایتیں مل رہی ہیں۔ اس قبرستان کی زمین پر ڈیڑھ درجن سے زیادہ گھر بنے ہوئے ہیں۔ دھیان رہے کہ انگریز افسر جے پی کلیگم نے گرو گرنتھ صاحب کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔

گزشتہ سات سالوں میں وقف بورڈ کے ریو نیو میں 273 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2004-05 میں وقف کو پانچ کروڑ 23لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی تھی، جو 2011-12 میں بڑھ کر 17 کروڑ 62 لاکھ روپے ہوگئی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا کی صدارت میں ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں ایک قرار دادپاس کرکے کہا گیا تھا کہ ہریانہ میں وقف بورڈ کی ساری املاک کا دوبارہ سروے کرایا جائے گا اور ناجائز قبضوں کو ہٹانے کے لئے وقف بورڈ کے افسران کو مزید اختیارات دیے جائیں گے۔ گزشتہ دنوں ہریانہ سرکار نے اخبار میں اشتہارات دے کر ہریانہ وقف بورڈ کی کارگزاریوں کا پروپیگنڈا بھی کیا تھا جس سے ظاہر ہوتاہے کہ وقف بورڈ کے افسران نے سرکار کو بھی اندھیرے میں ہی رکھا ہے۔ وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر نسیم احمد کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے وقف بورڈ کی املاک پر ناجائز قبضہ کیا ہے انہیں پی پی ایکٹ کے تحت خالی کروانے کا معاملہ صدر جمہوریہ کے پاس زیر غور ہے۔ ’ہریانہ مسلم خدمت سبھا ‘کے چیف صوبائی کنوینر محمد رفیق چوہان کا کہنا ہے کہ ہریانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور زیادہ تر مسلمان پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ وقف بورڈ کے افسران اسی بات کا فائدہ اٹھا کر وقف کی املاک کو بیچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی، کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی، مسلم ممبران پارلیمنٹ ، ہریانہ کے سبھی ممبران پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو خط لکھ کر قصور وار افسران کو برخاست کرتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرکار کو اس معاملے میںاعلیٰ سطحی جانچ کرانی چاہئے۔انہوں نے لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہریانہ میں وقف املاک کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان کے تحفظ کے لئے آگے آئیں اورقابضین اور لیز کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والے پٹے داروں کے خلاف قانونی کارروائی میں تعاون کریں۔

سرکاری قواعد
حال ہی میں ہریانہ کابینہ نے ملک کے وقف انتظامیہ میں یکسانیت لانے کے لئے ہریانہ وقف قانون 2012 کو منظوری دی ہے۔ کابینہ کی میٹنگ کے بعد وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا نے کہا کہ نئے ضابطوں میں بورڈ کے ممبران کے انتخاب کا طریقہ ، چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی سروس کی اہلیت و شرائط مقرر کی گئی ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی میں وقف املاک کی غیر قانونی طریقے سے وصولی کا عمل ، وقف املاک سے قبضہ ہٹانے کا طریقہ ، وقف فنڈ کا حساب،سرمایہ کاری کی حفاظت کے طور طریقے بنائے گئے۔ وقف قانون 1995 کے تحت پارلیمنٹ کے ذریعے جاری وقف املاک سے متعلق وقف ٹریبونل کی ریت ا ور کارروائی کی سالانہ رپورٹ سرکار کو دینے کا پرویزن کیا گیا ہے۔ ضوابط میں بدعنوان طرز عمل (کرپٹ پریکٹیز) کی جانچ کے لئے پرویزن کئے گئے ہیں،ریپریذنٹیشن آف دی پیوپل ایکٹ 1951 کی دفعہ 123 کے پرویزن ، بد عنوان طرز عمل کی جانچ کے لئے ہریانہ وقف قانون 2012 کے باب 3 میں ضروری تبدیلی سمیت نافذ ہوں گے۔ وقف املاک کی منتقلی کے لئے شرائط اور پابندی لگائی گئی ہیں۔ اب درخواست گزار کو مجوزہ کام کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک حلف نامہ دینا ہوگا کہ یہ وقف کے لئے فائدہ مند ہوگا اور اس کا کیسے استعمال کیا جائے گا۔ اس بابت اعتراضات پانے کے لئے کسی بھی مجوزہ کام کی اطلاع سرکاری گزٹ اور کثیر الاشاعت دو اخباروں میں شائع کی جائے گی۔ اطلاع میں کام کی تفصیل ہوگی اور’ 30 دنوں سے کم نہیں‘ کی منطقی میعاد مقرر ہوگی۔ جس میں اعتراضات یا سجھائو بھیجے جائیں۔ پبلک نیلامی کے ذریعہ غیر منقولہ جائداد کی سیل تب تک نہیں کی جائے گی جب تک کہ نیلامی کی تاریخ سے دو مہینے کے اندر بورڈ کے دو تہائی ممبران کے ذریعے اس کی منظوری نہیں دی جاتی ۔ نئے ضابطوں کے مطابق صوبائی سرکار وقف کے سروے کشمیر کمشنروں کا تقرر کرے گی جو کمشنر کے رینک سے کم عہدے کے نہیں ہوں گے۔ صوبائی سرکار ہر ریونیو ڈسٹرکٹ کے لئے وقف کے علاوہ سروے کمشنر کمشنروں کا بھی تقرر کرے گی جو ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہوں گے۔ صوبائی سرکار ریونیو سب ڈویژن کے لئے وقف معاون سروے کمشنر بھی مقرر کرے گی۔ جو متعلقہ ریونیو سب ڈویژن تحصیل کے ایس ڈی ایم ایگریکٹیو مجسٹریٹ ہوں گے اور وقف بورڈ کے املاک افسرملازمین اور نائب تحصیلدار یا کسی دیگر ریونیو آفیسرز کے ذریعے ان کی مدد کی جائے گی۔ سروے کمشنر صوبائی سرکار کو اپنے تقرر کی تاریخ سے ایک سال کے اندر یا صوبائی سرکار کے ذریعے توسیع کی گئی میعاد کے اندر اپنی رپورٹ فارم 1 جمع کرائیں گے۔ نئے ضوابط کے مطابق سروے کمشنر ، صوبائی سرکار کی پیشگی اجازت سے صوبے میں سروے کرانے کے لئے ریٹائرڈ ریونیو آفیسرملازمین سمیت کسی بھی ایجنسی یا ادارہ یا تنظیم یا پبلک انٹر پرائزز یا کسی شخص کی مدد لے سکیں گے۔ ایسے سروے کے سبھی اخراجات صوبائی سرکار کے ذریعے اٹھائے جائیں گے بشرطیکہ ایسی معاون ایجنسی شخص کے ذریعے دیا گیا کوئی بھی ڈاٹا تبادلہ منظوری سے پہلے سروے کمشنر کے ذریعے ریٹیفکیشن کی جائے گی۔ سروے کمیشن وقت اور مقام مقرر کرنے کے ساتھ آگزیلری پروسیزرکو قاعدہ کے مطابق کریں گے۔ بہر حال سرکار نے اعلامیہ کردیے ہیں لیکن ان پرکتنا عمل ہوگا ،یہ کہنا مشکل ہے۔
ار

0 Comments

Post a Comment


Contact Us

Email : newsdesk.starnewsagency@gmail.com

Firdaus Khan

Star News Agency

e-newspapers

Blog

Popular Posts

.

Followers

Contact Form

Name

Email *

Message *

Translate

Add This

Share |